حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات کے پرودے پر پابندی کے خلاف اس وقت پورے ہندوستان میں احتجاج جاری ہیں، اسی سلسلے میں حوزہ نیوز ایجنسی نے ہندوستان کے بعض بزرگ علمائے کرام سے ایک انٹرویو کے ذریعہ ان کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کی۔
سوال ۱: ہندوستان میں جو اس وقت پردے کے خلاف ایک مہم جاری ہے اس کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جامعہ اہلبیت علیہ السلام دہلی کے سربراہ و استاد حجۃ الاسلام و المسلمين مولانا قاضی سيد محمد عسكرى نے کہا کہ انسان دشمن طاقتیں، انسانیت مخالف عناصر اور سامراجی ذہن کے مالک افراد، اسلام اور مسلمانوں اور مسلمانوں کو اپنے ناپاک عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، اور اپنے زعم ناقص میں اسلام و مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں، اور طرح طرح کی سازشین رچتے رہتے ہیں۔
مولانا نے کہا کہ کرناٹک میں با حجاب طالبات کے خلاف یہ گھنونے اقدامات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اس انسانیت سوز سازش کے دو اہم مقاصد ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کو ذہنی طور پر مرعوب اور خوفزدہ کر کے انہیں ترقی کی دوڑ سے علیحدہ کرنا، اور دوسرے یہ آزمانا ہے کہ مسلمان ابھی اس وقت اسلامی تعلیمات اور فرائض کے سلسلے میں کتنے حساس ہیں، ابھی ان کے اندر اسلامی غیرت باقی ہے یا اب وہ بے غیرتی کا لبادہ اوڑھ کر اسلامی اقدار سے لاتعلق ہو چکے ہیں، یعنی اسلام کی بیخ کنی کے لئے آخری حملے کا وقت آچکا ہے، لیکن بحمد اللہ اب ناپاک عناصر کو ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی اور ہندوستان کے غیرت مند مسلمانوں نے دینی اور اسلامی اقدار سے بھر پور وفاداری کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔
سوال: مسلم خواتین کو اپنے پردے کے تحفظ کیلئے کیا اقدامات کرنا چاہئے؟
امام جمعہ خوجہ جامع مسجد اور حوزہ علمیہ جامعۃ الامام امیرالمومنین علیہ السلام "نجفی ہاؤس" ممبئی کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احمد علی عابدی نے سب سے پہلے اسلام میں پردے کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا اور کہا یہ ایک الہی قانون ہے جس میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کا امکان نہیں ہے، پردہ نہ صرف اسلامی تعلیمات میں لازم و ضروری ہے بلکہ دنیا کی تمام مہذب قوموں میں پردہ کا وجود ہے اور خواتین بے پردہ سامنے نہیں آتی ہیں، ہندوستان میں جو پرانی ہندو تہذیب ہے اس ہندو تہذیب میں آج بھی ہندو خواتین کھلے سر بازار اور لوگوں کے سامنے نہیں آتی ہیں کیوں کہ ان کے دین میں پردہ ہے، اسلام میں بھی پردہ واجب ہے اور ہر وہ لڑکی جو بلوغ کی منزل پر پہنچ جائے اس پر پردہ واجب ہے اور وہ بے حجاب نہیں ہو سکتی، لہذا ہم کسی بھی صورت پردہ کے متعلق کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے کیوں پردہ کو خداوند عالم نے واجب کیا ہے، لہذا دنیا کو کوئی بھی انسان اس حکم میں تبدیلی نہیں لا سکتا۔
مولانا نے مزید کہا کہ دنیا کی ترقیاں اسلامی قوانین میں پرگز تبدیلی کا سبب نہیں بن سکتیں، اور کسی کو بھی خدا کے قوانین میں تبدیلی کا حق نہیں ہے، لہذا یہ پردہ لازم و ضروری ہے، اور اس کی پاسداری سب کا حق ہے اور سب کو مل کر اسکے خلاف آواز اٹھانا چاہئے، اور اسی یہ پردہ کسی بھی طرح سے ملکی تہذیب کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی رنگارنگ تہذیب کا جز ہے، اس بنا پر پردہ لازم و ضروری ہے، اور پردے کی مخالفت انسانی اقدار اور انسانی اخلاق کی مخالفت ہے۔
سوال : پردے کے خلاف آپ اس مہم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ کیا یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ ہے ؟
امام جمعہ لکھنؤ و سربراہ مجلس علماء ہند حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہا کہ حجاب ہمارا اسلامی تشخص ہے، اس تشخص کو ختم کرنے یا مشکوک کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔کرناٹک میں جو کچھ ہورہاہے وہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے ۔حجاب کو یونیفارم کا حصہ بنایاجاسکتاہے کیونکہ حجاب تعلیم میں رکاوٹ نہیں بنتا۔سرکار اور نفرت پھیلانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔باحجاب خواتین نے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں،اس کے لیے تاریخ کا مطالعہ کیا جاسکتاہے ۔ساتھ ہی مسلمانوں کو اپنے تشخصات کے سلسلے میں بیدار رہنا ہوگاکیونکہ جب کسی قوم کا تشخص ختم ہوجاتاہے تو وہ مردہ ہوجاتی ہے ۔ممکن ہے حجاب کے بعد یہ مطالبہ کیاجائے کہ آیند ہ اسکول اور کالجوں میں داڑھی کے ساتھ داخل نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ان مطالبات کی کوئی حد نہیں ہے ۔ہمیں قانون کا سہارا لینا چاہیے اور پوری توانائی کے ساتھ اپنا موقف رکھنا چاہیے ۔
مولانا کلب جواد نے مزید کہا کہ کرناٹک میں حجاب کے خلاف جو مہم چلائی جارہی ہے اب سیاسی رنگ اختیار کرچکی ہے ۔بلکہ یوں کہاجائے کہ حجاب کے خلاف سیاست نفرت میں بدل گئی ہے ۔ورنہ کالج کے کیمپس میں طلباء بھگوا گمچھے اوڑھے ہوئے ،جے شری رام ‘ کے نعرے کیوں لگارہے تھے ؟ کالج کے کیمپس میں اگر حجاب کے ساتھ داخلہ منع ہے تو پھرطلباء کو بھگوا شالوں اور گمچھوں کے ساتھ داخل ہونے سے کیوں نہیں روکا گیا ؟۔یاکالج انتظامیہ یہ کہے کہ وہ سب کالج کے طالب علم نہیں تھے ۔
سید کلب جواد نقوی نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس پورے مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیاکیونکہ اس طرح کے مسایل اٹھانے سے کچھ لوگوں کو سیاسی فائدہ پہونچتا ہے۔ہماری سرکار کو بہتر تعلیم اور ماڈل تعلیمی اداروں کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے ۔اس طرح کے مسائل ملک اور قوم کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔
سوال: مسلم خواتین کی تعلیم کے لئے کیا اقدامات ہونے چاہئے؟ اس کا راہ حل کیا ہے؟
سربراہ تنظیم المکاتب حجت الاسلام و المسلمین مولانا سید صفی حیدر زیدی نے ہندوستان میں خواتین کے تعلیمی حوالے سے ۸ اہم نکات کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ملک عزیز ہندوستان میں خواتین کی تعلیم کے لئےمندرجہ ذیل امور اہم ہیں :
۱۔ خواتین کےلئے ملک گیر پیمانے پر اسکولس کم از کم درجہ ۶ اور اس سے آگے کے کلاسز، کالجز اور یونیورسٹیز قائم کرنا جہاں اسلامی آداب کے ساتھ تعلیم دی جائے۔ خصوصا ًمسلم نشین علاقوں میںایسے اسکولس اور کالجز کھولے جائیں جہاں ہماری بیٹیاں اسلامی حجاب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں ۔
۲۔خواتین کی ساخت سے میل کھاتے ٹیکنیکل کالج
۳۔ بورڈنگ۔ تعلیمی شہروں میں بورڈنگ جہاں دور دراز کے گاؤں کی بچیاں حفاظت اور دینی تربیت کے ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل کر سکیں۔
۴۔ آن لائن تعلیم ۔
۵۔ اسکل ڈیولیمنٹ یعنی ایسے مراکز قائم کئے جائیں جہاں خواتین کے ذوق اور صلاحیتوں کے مطابق انکی ساخت کا لحاظ رکھتے ہوئے ٹریننگ دی جائے جیسے میڈیا، اینیمیشن، سافٹ ویئر ڈزائنگ وغیرہ
۶۔ K.G.سے12thتک مسلسل پارٹ ٹائم دینی تعلیم دی جائے۔
۷۔ خواتین کو اسلامی تربیتی کورسز کرائے جائیں۔
۸۔ شادی سے پہلے اور شادی کےبعد کاؤنسلنگ کرائی جائے تا کہ رشتہ برقرار رہےاور گھر اور خاندان کی زندگی بھی پرسکون رہے۔
سوال: مسلمانوں کو اپنے حقوق کی دستیابی کے لئے کیا کرنا چاہئے اور مسلم خواتین کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سرپرست مرکز تحقیقات الحیاۃ ممبئی و مرکزی صدر مجلس علمائے ہند حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید حسین مہدی حسینی نے کہا کہ اس وقت حجاب کو لے کر پورے ملک میں انتشار پھیلا ہوا ہے ، یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ حجاب کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ قدیم زمانے سے یہ حجاب خواتین کی زینب قرار پایا ہے، آج بھی ہندو تہذیب اور سماج میں گھونگھٹ کی رسم پائی جا رہی ہے ، اور جب بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے وزیر اعظم ہو یا وزیر اعلی، اپنی ریاست کے لباس کو پہن کر کے پارلیمنٹ اور اسٹیٹ کی سیٹوں پر بیٹھ رہے ہیں تو ایسی صورت میں مسلمان خواتین اگر حجاب کو لازم سمجھ کو اس پر عمل کر رہی ہیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔
مولانا نے مزید کہا کہ آج ہمارے ملک میں ایسے افراد پائے جا رہے ہیں جو بالکل برہنا ہیں تو کیا اس انداز کے خلاف بھی کوئی آواز اٹھائی گئی؟ میرے خیال سے یہ صرف الیکشن کی دین ہے اور الکشن کے زمانے میں جب نفرت کی سیاست کرنے والی سرکار اپنی شکست کو محسوس کر رہی ہے تو اس نے سوچا کہ کسی بھی صورت ہندو اور مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم کر دیا جائے اور اپنی کھوئی پوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کر لے، لیکن انسان بیدار ہو چکا ہے اور بیدار ہے تو یقیبااب یہ موقع ان کے ہاتھ ان کے ہاتھ نہیں آنے والا اگر وہ سچائی سے انتخابات لڑتی ہے۔